طاقت کی سیاست: پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو جیل میں رکھنے سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے

طاقت کی سیاست: پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو جیل میں رکھنے سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے


پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ملک کی سیاسی ترتیب میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اور سابق 

وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمران خان کی گرفتاری اور حراست نے کافی توجہ حاصل کی ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو جیل میں رکھنے سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، ضروری ہے کہ وسیع تر سیاسی، اسٹریٹیجک اور ادارہ جاتی مفادات کا جائزہ لیا جائے جنہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ محفوظ یا فروغ دینا چاہتی ہے۔




یہاں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو جیل میں رکھ کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے:


1. پاکستان کی سیاسی ترتیب پر کنٹرول برقرار رکھنا


پاکستان میں فوج کا سیاسی نظام پر براہِ راست اور بالواسطہ کنٹرول کا ایک طویل تاریخ ہے۔ فوج نے مختلف اوقات میں مارشل لا، پس پردہ مداخلت اور کلیدی سیاسی رہنماؤں پر کنٹرول کے ذریعے حکومتوں کو اپنے قابو میں رکھا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ وہ حکومت میں ایک غالب کردار برقرار رکھے تاکہ اپنے مفادات جیسے کہ معاشی فوائد، دفاعی بجٹ اور جغرافیائی حکمتِ عملی کو تحفظ دے سکے۔ عمران خان کی مقبولیت اور حالیہ مہینوں میں ان کی فوج پر تنقید اس روایتی طاقت کے توازن کو چیلنج کر رہی تھی۔ ان کو جیل میں رکھ کر فوج:


- اپنی اتھارٹی کو مضبوط کر سکتی ہے: عمران خان، اپنی عوامی حمایت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ساتھ، فوج کے سیاسی کنٹرول کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے تھے۔ ان کی مقبولیت اور خودمختار قیادت نے انہیں کنٹرول کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ انہیں جیل میں رکھنے سے فوج سیاسی منظر نامے پر اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کر سکتی ہے۔
 
- سیاسی عدم استحکام یا تصادم کو روک سکتی ہے: عمران خان کی مسلسل تحریک اور سڑکوں پر مظاہرے ملک میں بڑے پیمانے پر عدم استحکام یا اداروں کے ساتھ تصادم کا باعث بن سکتے ہیں۔ فوج انہیں جیل میں رکھ کر بڑے پیمانے پر سیاسی ہلچل اور احتجاجی تحریکوں سے بچ سکتی ہے۔


2. پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو کمزور کرنا


عمران خان کو جیل میں رکھنے کا ایک اہم مقصد پی ٹی آئی کو کمزور کرنا ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی پاکستان کی سیاست میں ایک طاقتور جماعت بن کر ابھری تھی، جس نے شہری علاقوں، نوجوانوں اور متوسط طبقے میں بڑی حمایت حاصل کی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ، جو ہمیشہ ایک منتشر سیاسی نظام کو ترجیح دیتی ہے تاکہ انتخابی نتائج کو بہتر طور پر کنٹرول کیا جا سکے، چاہتی ہے کہ:


- پی ٹی آئی کو تقسیم کرے: عمران خان پی ٹی آئی کی مرکزی شخصیت ہیں۔ ان کی قیادت کے بغیر پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے اور اپنے ووٹ بینک اور تنظیمی قوت کو کھو سکتی ہے۔ عمران خان کو جیل میں رکھنے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کی اندرونی تقسیم اور قیادت کی جنگوں کو ہوا دے سکتی ہے، جس سے پارٹی کی سیاسی طاقت کمزور ہو جائے گی۔


- پی ٹی آئی کی قیادت کو بدنام کر کے اس کی مقبولیت کم کرے: عمران خان پر طویل جیل کی سزا ان کے کچھ حمایتیوں کی نظروں میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے، خاص طور پر اگر انہیں بدعنوان یا ملک دشمن کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس سے وہ عوامی حمایت ختم ہو سکتی ہے جس پر پی ٹی آئی نے انحصار کیا تھا۔


3.روایتی سیاسی نظام کی بحالی


پاکستان کا سیاسی نظام اکثر دو پارٹیوں پر مشتمل رہا ہے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل-ن) مرکزی سیاسی قوتیں رہی ہیں۔ دونوں جماعتیں مختلف ادوار میں فوج کے ساتھ طاقت کی شراکت کے انتظامات کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کا ابھرنا اس توازن کو بگاڑ گیا، اور فوجی اسٹیبلشمنٹ شاید اس تبدیلی کو روایتی ترتیب میں واپس لانے کے لیے عمران خان کو قید میں رکھنا چاہتی ہے۔ اس سے فوج:


- پرانے سیاسی رہنماؤں کو دوبارہ مستحکم کر سکتی ہے: نواز شریف (پی ایم ایل-ن) اور آصف زرداری (پی پی پی) جیسے رہنما وہ سیاسی شخصیات ہیں جو فوج کے ساتھ سمجھوتے کرنے میں زیادہ تیار ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت نے اس سلسلے کو متاثر کیا تھا، اور فوج ان کی جیل میں موجودگی کو ان سیاسی رہنماؤں کی واپسی کے لیے ایک راستہ سمجھتی ہو گی۔


- ایک کنٹرول شدہ انتقالِ اقتدار کو یقینی بنانا: عمران خان کو جیل میں رکھ کر، فوج اپنے پسندیدہ سیاسی منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے، ممکنہ طور پر ایک ایسی "اتحادی" حکومت کی حمایت کر سکتی ہے جو ان کے لیے زیادہ مفید ہو۔


4. ادارہ جاتی مفادات اور ساکھ کو محفوظ بنانا


پاکستانی فوج خود کو ریاست کا محافظ سمجھتی ہے اور اپنی ساکھ کو سیاست سے بالاتر رکھنا چاہتی ہے، اگرچہ وہ اس وقت مداخلت کرتی ہے جب اسے قومی استحکام یا ادارہ جاتی مفادات کو خطرہ محسوس ہو۔ عمران خان کی تنقید، خاص طور پر ان کی حکومت سے برطرفی کے بعد، فوج کے لیے ایک براہِ راست چیلنج بن گئی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ شاید ان کو قید میں رکھنے کو ضروری سمجھتی ہے تاکہ:


- فوج کی ساکھ اور اتھارٹی بحال کی جا سکے: عمران خان کی عوامی تنقید نے فوج کی ادارہ جاتی ساکھ کو متاثر کیا تھا۔ انہیں جیل میں رکھ کر، فوج ایک واضح پیغام دے رہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی رہنما فوج کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کر سکتا۔

- فوج کے معاشی مفادات کی حفاظت کی جائے: پاکستانی فوج مختلف معاشی شعبوں میں وسیع مفادات رکھتی ہے، جیسے کہ رئیل اسٹیٹ اور صنعت۔ عمران خان کی بدعنوانی مخالف بیانیہ فوج کے معاشی مفادات کے لیے بھی خطرہ بن سکتا تھا، اور ان کی سرگرمی فوج کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی تھی۔


5. عالمی تعلقات میں ہم آہنگی برقرار رکھنا


پاکستان کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر اس کے امریکہ، چین اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات، ہمیشہ فوجی ترجیحات کے مطابق تشکیل دی جاتی ہے۔ عمران خان کا روس کی طرف جھکاؤ اور امریکہ پر ان کی تنقید فوج کے روایتی خارجہ پالیسی نظریے سے مختلف تھا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو نظر انداز کر کے:


- خارجہ پالیسی کو فوج کے مفادات کے مطابق کر سکتی ہے: فوجی اسٹیبلشمنٹ جو امریکہ، چین اور سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات کو ترجیح دیتی ہے، عمران خان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کو ایک رکاوٹ سمجھ سکتی تھی۔


- علاقائی استحکام کو یقینی بنانا: عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کے اثرات پاکستان کی بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر بھی مرتب ہو سکتے تھے۔


6. عوامی بغاوت یا بدامنی سے بچاؤ


عمران خان کی مقبولیت، خاص طور پر شہری علاقوں اور نوجوانوں میں، ایک عوامی بغاوت کا باعث بن سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر احتجاج یا عمران خان کے حق میں تحریکیں ملک میں بدامنی پیدا کر سکتی ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ شاید انہیں جیل میں رکھ کر:


- عوامی تحریک کو روکے: عمران خان کو گرفتار کر کے ان کے حمایتیوں کو ایک مضبوط قیادت کے بغیر چھوڑ دیا جا سکتا ہے، جس سے ان کی تحریک کمزور ہو سکتی ہے۔


- قانون اور نظم و ضبط برقرار رکھے: عمران خان کے حق میں احتجاجات سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے جانی اور مالی نقصان کا خدشہ ہو سکتا ہے۔


نتیجہ

عمران خان کو جیل میں رکھنے کا فیصلہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کئی اسٹریٹیجک مقاصد پورے کرتا ہے۔ یہ ایک سیاسی خطرے کو ختم کرتا ہے، ایک مضبوط اپوزیشن جماعت کو کمزور کرتا ہے، روایتی سیاسی نظام کو بحال کرتا ہے، فوج کے ادارہ جاتی مفادات کی حفاظت کرتا ہے، اور داخلی و خارجی پالیسی پر فوج کا کنٹرول برقرار رکھتا ہے۔ 

تاہم، یہ حکمتِ عملی اپنے ساتھ خطرات بھی لے کر آتی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری ان کے حمایتیوں کو مزید متحرک کر سکتی ہے اور طویل مدتی سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔




Qaidi804 سے جڑے رہیں:

🌐 ویب سائٹ: http://804.buzz
📱 ٹیلیگرام: https://tinyurl.com/Telegram804
💬 اوپن چیٹ: https://tinyurl.com/OpenChat804

🔗 ٹیگر: https://taggr.link/journal/Qaidi804

🐦(ایکس): https://x.com/Qaidi804_1405



ڈس کلیمر:

$804 کا عمران خان یا ڈیفینیٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ٹوکن صرف عظیم عمران خان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، جو کرپشن کے خلاف کھڑے ہوئے اور 25 کروڑ لوگوں کے لیے امید کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔


$804 ایک میم ٹوکن ہے جس کی کوئی اندرونی قیمت یا مالی توقعات نہیں ہیں۔ اس کے پیچھے کوئی باقاعدہ ٹیم یا روڈ میپ نہیں ہے اور یہ صرف تفریحی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے، جس کا کوئی عملی استعمال نہیں ہے۔


 

Comments

Popular posts from this blog

انتخابات میں دھاندلی اور فوجی مداخلت: 2024 کے انتخابات

بلاک چین: مالیاتی انقلاب اور مستقبل کی سمت